بسم اللہ کرو فر

اردو ادب میں اگر کچھ مشکل ہے تو وہ مزاح نگاری لیکن آج ایک گل نو خیز کو ایک تھانیدار کے لیے رطب للسان دیکھا تو سوچا چل کاکا اپنا کام بن گیا

یہ کوئی مزاح نہیں مزاق ہے آپ پڑھ کر دندیاں کڈو یا نہ کڈو پر اپنی بھی تعریف ہونی چاہیے کہ جان جوکھوں میں ڈال کر ایک ایک لفظ کو مزاح کے سانچے میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور ہاں یاد رہے پیدا کرنے کو پیدا گیری کے معنوں میں نہ لیں اسکا مطلب تو کوئی عورت جانے ہا مجھ ایسا مزاح نگار۔

تعریف جو کروانی ہے اب اتنا کچھ تو سہنا ہی پڑے گا لیکن پرواہ نہیں کہ آخر کو ہم اپنی گل نوخیز کے سامنے پیش ہوا چاہتے ہیں۔

دو گھنٹے گزر گئے اس سے آگے ایک لفظ بھی نہین پیدا ہو رہا اس لئے اے گل نوخیز اختری اپنی سنبھال رکھ آخر کو کرنی تو توبہ ہی ہے اور آپ کے تعریفی الفاظ نے میرا وہی حشر کرنا ہے جو چاچا عبادت حسین نے ایک نوخیز کا کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک نوخیز کو کیا شرارت سوجھی اس نے چاچا عبادت حسین کو جا چھبی ڈالی چاچا سادہ بندہ تھا جیب سے چونی نکالی اور کہا شاباش بچہ جوانی کی ابتداء اچھی ہے نوجوان نے کچھ عرصہ بعد سوچا یہ کوئی بھلا محسوس ہوتا ہے اور ایک روپے کی توقع میں ایک اور ٹرائی ماری لیکن اس دفعہ اسکا سامنا چاچا عبادت سے نہیں تھا اور اس بھلے مانس کے پاس کھونڈی بھی اس لکڑ کی بنی تھی جس لکڑ کی سوٹی ہمارے چھٹی جماعت کے ماسٹر صاحب کے پاس ہوا کرتی تھی۔

اس سوٹی سے تو بچنے کے لیے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کیا کیا جتن  کرتے تھے ہم ہمارا کلاس فیلو شیدا تو ایک مرتبہ بجائے چار پانچ شلواریں پہننے کے صرف ایک گتہ شلوار میں پھنسا کر آ گیا تھا ہم اس سوٹی کو پٹاکی کی سوٹی بولتے تھے اور اس دن شیدے کی پٹاک پٹاک سن کر پتا چلا کہ اس درخت کا نام پٹاکی کیوں رکھا گیا ہو گا لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ اب ہم مرغا بننے سے پہلے قمیض کا پہلو اٹھا کر چیک کیے جاتے تھے اور شلواروں کی تعداد باقاعدہ گنتی کے بعد اعلان کی جاتی تھیں جتنی شلواریں اتنی ہی سوٹیاں ضرب پانچ

بعد کے روپے سے ابھی کی چونی بھلی ہم کان لپیٹ کر نکل لیے

اور ہاں یہ بھلا کہا کہ تحریر کا پیٹ بھرنا ہو تو سیاست کا سیاپا لے کر بیٹھ جاو اللہ جنت ںصیب کرے مجھے ان کا نام یاد نہیں آ رہا آخر کا ایک پورا پیرا گراف تو ان کا یوں ہوتا تھا

 "کم علمی کی وجہ سے کالم کے عنوان سے ادھر ادھر بھٹک گیا ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ۔۔۔"

 

یاد آیا میں بھی تو اپنی کم علمی کو وجہ سے اپنی تحریر کے عنوان سے بھٹک گیا ہوں دوبارہ اپنے عنوان کی طرف لوٹتے ہیں ویسے بھی  حس مزاح پھڑکے تو ایک سیاسی پارٹی کا اشتہار دیکھ کر اپنی پیاس بجھائی جا سکتی ہے

ایک لیڈر کہ رہا ہے پانچ سالوں میں ملک اتنا مقروض ہو گیا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ معیشت دوبارہ اپنے پاوں پر کیسے کھڑی ہو گی اشتہاری پارٹی کا جواب آتا  ہےجناب عالی! آپ کو تو ابھی سمجھ نہیں آ رہی ہم نے بھی تو پانچ سال تک خوب سے خوب تر قرضہ لیا ہے اور یہ وہ اشتہاری نہیں جو بھاگ جاتے ہیں اور اشتہاری کہلواتے ہیں بلکہ یہ میدان میں موجود ہیں اس لیے اس اشتہاری سے مراد اشتہار دینے والی پارٹی لیا جائے



No response to “بسم اللہ کرو فر”

Post a Comment