کھیسے میں دینے کو سکہ ہی نہیں تو اللہ کے فقیر کی زبان پر بددعا کیسے

جناب حسن نثار آپ کہتے ہیں کہ آپ پچاس سال بعد آنے والی نسل ک لئے لکھتے ہیں تو پھر آپ جنگلا بس کو کیوں اتنا کوستے ہیں ہو سکتا ہے پچاس سال بعد یہ چیز ترقی میں اپنا حصہ بقدرے ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر
 جب میاں براردران کی طرف سے کہا گیا کہ حسن صاحب کچھ زاتی ناراضی کی بنا پر خلاف بولنا شروع ہو گئے آپ نے تاہید کی انکار نہیں مجھے ان للووں پنجووں سے کوئی غرض نہیں اور میرا نہیں خیال کہ اگلے سو دو سو سال تک کی ہماری نسلیں ان سے جان چھڑا سکیں خود دیکھ لیں چپاتیوں کی تقسیم سے شروع ہونے والی ایک رسم آج بھی موباہل پیغامات کی صورت جاری ہے جو قوم جنگ آزادی سے آج تک چپاتیوں کی تقسیم سے نہیں نکل سکی تو کیوں نہ یہ جغادری اس قوم کو ڈہڈو سمجھیں آپ سچ لکھتے اور سچ کہتے ہیں اور سچ کڑوا ہی ہوتا ہے لیکن کبھی آپ کو نہیں محسوس ہوا کہ آپ کے الفاظ مایوسی بھی ابھار سکتے ہیں یا یہ کہ پچاس سال بعد کی نسل کا نوجوان یہ کہنے میں حق بجانب نہ ہو کہ آپ نے اپنے تیں اسی دن کی تاریح شام ہونے سے قبل لکھ ڈالی مجھے تو ان پر بھی ترس آتا ہے جو بھٹو صاحب پر طعن کرنے کے لیے یا ان کا دفاع کرنے کے لیے نرخرے پھڑانے لگتے ہیں کہ ہم تاریح کو مسح نہیں ہونے دیں گے کون سی تاریح۔? ابھی بھٹو صاحب کی قبر کی مٹی تو خشک ہو لینے دیں میں دوسری طرف نکل گیا تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کیوں نہ آپ بجائے مزید پچاس سال انتظار کرنے کے آج کی نسل کے لیے لکھیں
گھر سے نکل کر پارک کی بجائے بچہ سکول میں کیوں زیادہ سکون نہیں محسوس کرتا۔
فلمیں صرف مار دھاڑ پر ہی کیوں بنتی ہیں?
ایک سنکی شخص کے ڈرامے پر میڈیا کیوں پوری قوم کو یرغمال بنا لیتا ہے?
سڑکوں پر ہر بندہ کیوں جلدی میں ہوتا ہے?
مکان بنانے سے پہلے کوئی کیوں نہیں سوچتا کہ وہ کتنے اور گھروں کی ہوا روکنے کا سبب بن رہا ہے?
وہ گلی کے لیے کیوں اتنا کم رستہ چھوڑتا ہے کہ بعد میں اسی کے لیے مصیبت بھی بنتا ہے?
 گاوں میں پرانے وقتوں کے بنے جوہڑ جو مویشوں کے کام بھی آتے اور پانی زخیرہ بھی کرتے بجائے ندی نالوں کی طغیانی میں اضافہ  کرنے کے۔ آخر گئے کدھر۔
لاشوں کو پھلانگتے یہ کیسی سوچ کہ یہ میں یا میرا نہیں ?
عزت اپنی چار دیواری تک ہی محدود کیوں ?
مسجد کا سپیکر صرف جہنم کی آگ سے ڈرانے کو کیوں ?
دوسروں کی ٹانگ کھینچنے میں اتنی چاشنی کیوں ?
کھیسے میں دینے کو سکہ ہی نہیں تو  اللہ کے فقیر کی زبان پر بددعا کیسے ?
چھوڑیں آج کی بات کریں ابھی کی بات کریں میری اور آپ کی بات کریں
یہ للو پنجو اس قابل کہاں کہ ان پر مغض کھپائی کی جائے جن کی سوچ ہی اتنی محدود ہے کہ اگر سیلاب آنا بند ہو جایئں تو ان کی تصویریں کون اتارے سونامیوں کی امیدوں سے بھی نکلیں کہ تعریف ہو تو "یا امام" تنقید ہو تو الحفیظ الامان
اور آخر میں خالہ جی سے استدعا ہے سرد جنگ پر گزارا کریں ہمیں ٹویٹ ملنے دیں

No response to “کھیسے میں دینے کو سکہ ہی نہیں تو اللہ کے فقیر کی زبان پر بددعا کیسے ”

Post a Comment